24-Apr-2022 لیکھنی کی کہانی -منٹو کے افسانے قسط 17
منٹو کے افسانے قسط17
سن اکتیس کے شروع ہونے میں صرف رات کے چند برفائے ہوئے گھنٹے باقی تھے۔ سعید لحاف میں سردی کی شدت کے باعث کانپ رہا تھا، وہ پتلون اورکوٹ سمیت لیٹا تھا۔ لیکن اس کے باوجود سردی کی لہریں اس کی ہڈیوں تک پہنچ رہی تھیں۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے کمرے کی سبز روشنی میں جو سردی میں اضافہ کر رہی تھی، اس نے زور زور سے ٹہلنا شروع کر دیا تاکہ دوران خون تیز ہو جائے۔ تھوڑی دیر یوں چلنے پھرنے کے بعد جب اس کے اندر گرمی پیدا ہوئی تو وہ آرام کرسی پر بیٹھ گیا اور سگریٹ سلگا کر اپنا دماغ ٹٹولنے لگا۔ اس کا دماغ چونکہ بالکل خالی تھا۔ اس لئے اس کی قوت سامعہ بہت تیز تھی، کمرے کی ساری کھڑکیاں بند تھیں مگر وہ باہر گلی میں ہوا کی مدھم گنگناہٹ بڑی آسانی سے سن رہا تھا۔ اسی گنگناہٹ میں اسے انسانی آوازیں سنائی دیں ،ایک، دبی دبی چیخ دسمبر کی آخری رات کی خاموشی میں کے اول کی طرح ابھری۔ پھر کسی کی التجائیہ آواز لرزی۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے کھڑکی کی درز میں سے باہر کی طرف دیکھا۔ وہی.... وہی لڑکی، یعنی سوداگروں کی نو کرانی بجلی کی لالٹین کے نیچے کھڑی تھی۔ صرف ایک سفید بنیان میں بجلی کی سفید روشنی میں یوں معلوم ہوتا تھا کہ اس کے بدن پر برف کی ایک پتلی سی تہہ جم گئی ہے۔ اس بنیان کے نیچے اس کی بد نما چھاتیاں ناریلوں کی طرح لٹکی ہوئی تھیں۔ وہ اس انداز میں کھڑی تھی، گویا، ابھی ابھی کُشتی سے فارغ ہوئی ہے۔ اس حالت میں دیکھ کر سعید کے صناعانہ جذبات کو دھکا سا لگا۔ اتنے میں کسی مرد کی بھینچی ہوئی آواز آئی.... خدا کے لئے اندر چلی آؤ.... کوئی دیکھ لے گا۔ تو آفت ہی آ جائے گی، وحشی بلی کی طرح غرا کر،لڑکی نے جواب دیا، نہیں آؤں گی.... بس ایک بار جو کہہ دیا کہ نہیں آؤں گی.... سب سے چھوٹے سوداگر کی آواز آئی۔'' خدا کے لئے اونچے نہ بولو.... کوئی سن لے گا راجو....'' تو اس کا نام راجو تھا۔ را جو نے اپنی لنڈوری چٹیا کو جھٹکا دے کر کہا۔، سن لے خدا کرے کوئی سن لے .... اور اگر تم یونہی مجھے آنے کے لئے کہتے رہے تو میں خود محلے بھر کو جگا کر سب کچھ کہہ دوں گی....سمجھے؟'' راجو، سعید کو نظر آ رہی تھی، مگر جس سے وہ مخاطب تھی، اس کی نظروں سے اوجھل تھا۔ اس نے بڑے سوراخ میں سے راجو کی طرف دیکھا، تو اس کے بدن پر جھرجھری سی طاری ہو گئی، اگر وہ ساری کی ساری ننگی ہوتی تو شاید اس کے صناعانہ جذبات کو اتنی ٹھیس نہ پہنچتی، لیکن اس کے جسم کے وہ حصے ننگے تھے، جو دوسرے مستور حصوں کو عریانی کی دعوت دے رہے تھے، راجو برقی لالٹین کے نیچے کھڑی تھی۔ سعید کو.... ایسا محسوس ہوا کہ عورت کے متعلق اس کے تمام جذبات اپنے کپڑے اتار رہے ہیں۔ راجو کی غیر متناسب باہیں جو کاندھوں تک ننگی تھیں ، نفرت انگیز طور پر لٹک رہی تھیں ، مردانہ بنیان کے کھلے اور گول گلے میں سے اس کی نیم پخت، ڈبل روٹی جیسی موٹی اور نرم چھاتیاں ، کچھ اس انداز سے باہر جھانک رہی تھیں ، گویا سبزی ترکاری کی ٹوٹی ہوئی ٹو کری میں سے گوشت کے ٹکڑے دکھائی دے رہے ہیں۔ زیادہ استعمال سے گھسی ہوئی پتلی بنیان کا نچلا گھیرا خود بخود اوپر کو سمٹ گیا تھا۔ اور ناف کا گڈھا اس کے خمیرے آٹے جیسے پھولے ہوئے پیٹ پر یوں دکھائی دیتا تھا جیسے کسی نے انگلی کھبو دی ہے۔ یہ نظارہ دیکھ کر سعید کے دماغ کا ذائقہ خراب ہو گیا، اس نے چاہا کہ کھڑکی سے ہٹ کر اپنے بستر کی طرف چلا آئے، اور سب کچھ بھول بھال کے سو جائے، لیکن جانے کیوں سوراخ پر آنکھ جمائے کھڑا رہا۔ راجو کو اس حالت میں دیکھ کر اس کے دل میں کافی نفرت پیدا ہو گئی تھی، شاید اسی نفرت کے باعث وہ اس سے دلچسپی لے رہا تھا۔ سوداگر کے سب سے چھوٹے لڑکے نے جس کی عمر تیس برس کے لگ بھگ ہو گی ایک بار پھر التجائیہ لہجہ میں کہا۔'' راجو خدا کے لئے اندر چلی آؤ، میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ پھر کبھی نہیں ستاؤں گا.... لو اب من جاؤ.... دیکھو خدا کے لئے اب مان لو.... یہ تمہاری بغل میں وکیلوں کا مکان ہے ان میں سے کسی نے دیکھ لیا تو بڑی بدنامی ہو گی۔ راجو خاموش رہی لیکن تھوڑی دیر کے بعد بولی۔ مجھے میرے کپڑے لا دو بس اب میں تمہارے یہاں نہیں رہوں گی۔ میں تنگ آ گئی ہوں ، میں کل سے وکیلوں کے ہاں نو کری کر لوں گی.... سمجھے! اب اگر تم نے مجھ سے کچھ کہا تو خدا کی قسم شور مچانا شروع کر دوں گی.... میرے کپڑے چپ چاپ لا کر دے دو.... سوداگر کے لڑکے کی آواز آئی.... لیکن تم رات کہاں کاٹو گی؟ راجو نے کہا جہنم میں۔ تمہیں اس سے کیا۔ جاؤ تم اپنی بیوی کی بغل گرم کرو۔ میں کہیں نہ کہیں سو جاؤں گی.... اس کی آنکھوں میں آنسو تھے.... سوراخ پر سے آنکھ ہٹا کر سعید پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا راجو کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اسے ایک عجیب قسم کا صدمہ ہوا اس میں کوئی شک نہیں کہ اس صدمے کے ساتھ وہ نفرت بھی لپٹی ہوئی تھی۔ جو راجو کو اس حالت میں دیکھ کر سعید کے دل میں پیدا ہوئی تھی۔ مگر غایت درجہ نرم دل ہونے کے باعث وہ پگھل سا گیا۔ راجو کی آنکھوں میں جو شیشے کے مرتبان میں چمکدار مچھلیوں کی طرح سدا متحرک رہتی تھیں۔ آنسو دیکھ کر اس کا جی چاہا کہ اٹھ کر اسے دلا سا دے۔ راجو کی جوانی کے چار قیمتی برس سوداگر بھائیوں نے معمولی چٹائی کی طرح استعمال کئے تھے، ان برسوں پر چاروں بھائیوں کے نقش قدم کچھ اس طرح غلط ملط ہو گئے تھے کہ ان میں سے اب کسی کو اس بات کا خوف ہی نہیں رہا تھا کہ کوئی ان کے پیروں کے نشان پہچان لے گا۔ اور'' راجو'' کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ نہ اپنے قدموں کے نشان دیکھتی تھی، نہ دوسروں کے، اسے بس چلتے جانے کی دھن تھی۔ کسی بھی طرف مگر اب شاید اس نے مڑ کر دیکھا تھا.... مڑ کر اس نے کیا دیکھا تھا، جو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے.... یہ سعید کو معلوم نہیں تھا۔ جو چیز معلوم نہ ہو، اس کو معلوم کرنے کی خواہش شاید ہر شخص کے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ کرسی پر بیٹھا، سعید دیر تک اپنی معلومات کو الٹ پلٹ کر کے سوچتا رہا۔ اور جب اٹھ کر اس نے کچھ اور دیکھنے کے لئے سوراخ پر آنکھ جمائی تو راجو وہاں نہیں تھی۔ دیر تک وہ اس سوراخ پر آنکھ جمائے رہا۔ لیکن اسے لالٹین کی برفیلی روشنی گلی کے ناہموار فرش اور گندی موری کے سوا جس میں پالک کے بے شمار ڈنٹھل پڑے تھے، اور کچھ نظر نہ آیا۔ باہر سنہ 30 کی آخری رات دم توڑ رہی تھی، اور اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ راجو کہاں ہے.... کیا اندر چلی گئی ہے.... کیا مان گئی ہے، مگر سوال، کہ وہ کس بات پر جھگڑی تھی؟۔ راجو کے کانپتے ہوئے نتھنے ابھی تک سعید کو نظر آ رہے تھے ضرور اس کے اور سوداگر کے چھوٹے لڑکے کے درمیان جس کا نام محمود تھا، کسی بہت بڑی بات پر جھگڑا ہوا تھا، جبھی تو وہ دسمبر کی خون منجمد کر دینے والی رات میں صرف ایک بنیان اور شلوار کے ساتھ باہر نکل آئی تھی۔ اور اندر جانے کا نام تک نہیں لیتی تھی۔ جب سعید سوچتا کہ ان کے درمیان جھگڑ ے کی بناء.... مگر وہ اس بناء پر غور ہی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ کس قدر گھناؤنا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے آ جاتا۔ لیکن وہ خیال کرتا کہ یہ بات جھگڑے کا باعث نہیں ہو گی۔ کیونکہ وہ دونوں تو اس کے عادی تھے۔ ایک زمانہ سے راجو ان سوداگر بھائیوں کو بڑے سلیقے سے ایک ہی دستر خوان پر کھانا کھلا رہی تھی۔ لیکن اب ایکا ایکی کیا ہو گیا تھا۔ راجو اور اس کے یہ الفاظ اس کے کانوں میں ضدی مکھی کی طرح بھنبھنا رہے تھے.... جہنم میں ....تمہیں اس سے کیا.... جاؤ تم اپنی بیوی کی بغل گرم کرو.... میں کہیں نہ کہیں سو جاؤں گی.... ان الفاظ میں درد تھا۔ اس کو دکھی دیکھ کر سعید کے ایک نامعلوم جذبے کو تسکین ضرور پہنچی تھی، لیکن اس کے ساتھ ہی اس کے دل میں رحم بھی پیدا ہو ا تھا۔ کسی عورت سے اس نے آج تک ہمدردی ظاہر نہیں کی تھی وہ اس کو دکھی دیکھنا چاہتا تھا۔ تاکہ وہ اس سے ہمدردی کا اظہار کر سکے.... وہ اس سے ہمدردی کا اظہار کر سکتا تھا۔ اس لئے کہ وہ اس کو سہہ لیتی۔ اگر وہ گلی کی کسی اور لڑکی سے ہمدردی کا اظہار کرتا، تو ظاہر ہے بہت آفت برپا ہو جاتی۔ کیونکہ اس کی ہمدردی کا مطلب کچھ اور ہی لیا جاتا۔، راجو کے سوا گلی کی تمام لڑکیاں ایسی زندگی بسر کر رہی تھیں۔ جس میں ایسے لمحات بہت ہی کم آتے ہیں جب ان سے خاص قسم کی ہمدردی کی جا سکتی ہے،اور اگر ایسے لمحات آتے ہیں ، تو وہ فوراً ہی ان کے سینوں میں ہمیشہ کے لئے دفن ہو جاتے ہیں۔ امیدوں اور تمناؤں کی قبریں اگر بنتی ہیں۔ تو فاتحہ پڑھنے کی اجازت نہیں ملتی۔ یا اس کا موقعہ ہی نصیب نہیں ہوتا۔اگر محبت کی کوئی چتا تیار ہوتی تو آس پاس کے لوگ اس پر راکھ ڈال دیتے ہیں کہ شعلے نہ بھڑکیں۔ سعید سوچتا کہ یہ کتنی تکلیف دہ مصنوعی زندگی ہے۔ کسی کو اجازت نہیں کہ وہ اپنی زندگی کے گڑھے دوسروں کو دکھائے،وہ لوگ جن کے قدم مضبوط نہیں ان کو اپنی لڑکھڑاہٹیں چھپانا پڑتی ہیں۔کیونکہ اس کا رواج ہے، ہر شخص کو ایک زندگی اپنے لئے اور ایک دوسروں کے لئے بسر کرنا ہوتی ہے، آنسو بھی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ قہقہے بھی دو قسم کے، ایک وہ آنسو جو زبر دستی آنکھوں سے نکالنے پڑتے ہیں ،اور ایک وہ خود بخود نکلتے ہیں اور خاص اصولوں کے ماتحت حلق سے بلند کرنا پڑتے ہیں۔ شاعر جس کی ساری عمر کوٹھوں پر اور شراب کے ٹھیکوں میں گذری ہو۔ موت کے بعد حضرت مولانا اور رحمۃ اللہ علیہ بنا دیا جاتا ہے، اگر اس کی لائف لکھی جاتی۔تو اس کو فرشتہ ثابت کرنا سوانح نگار اپنا فرض سمجھتا ہے۔ آغا حشر کی ساری زندگی کسبیوں میں گذری۔ مگر موت کے فوراً بعد ہی اس کے سارے کیریکٹر کو دھوبی کے ہاں بھیج دیا گیا۔ جب وہاں سے واپس آیا۔ اور لوگوں نے دیکھا تو اس میں کوئی داغ، کوئی شکن نہیں تھی....'' گدھے، گھوڑے، خچر، اونٹ، غرضیکہ ہر جاندار اور بے جان شے پر اخلاق مرد تسمہ پاکی طرح سوار ہے، ادب پر، شاعری پر، تاریخ پر، ہر انسان کی گردن پر اخلاق بٹھا دیا گیا ہے، مہاتما گاندھی سے لے کر ماسٹر نثار گوئیے تک سب کے سب اخلاق زدہ ہیں۔ سعید حق بجانب تھا۔ کہ راجو کی سدا متبسم آنکھوں میں آنسو نظر آئیں ، اور وہ ان آنسوؤں کو اخلاق سے بے پرواہ ہو کر اپنی انگلیوں سے چھوئے، وہ اپنے آنسوؤں کا ذائقہ اچھی طرح جانتا تھا۔ مگر وہ دوسروں کی آنکھوں کے آنسو بھی چکھنا چاہتا تھا۔ خاص کر کسی عورت کے آنسو! چونکہ عورت شجر ممنوعہ ہے، اس لئے اس کی یہ خواہش اور بھی تیز ہو گئی۔ سعید کو یقین تھا کہ اگر وہ راجو کے قریب ہونا چاہے گا۔ تو وہ جنگلی گھوڑی کی طرح بد کے گی نہیں۔ راجو غلاف چڑھی، عورت نہیں تھی۔ وہ جیسی بھی تھی، دور سے نظر آ جاتی تھی۔ اس کو دیکھنے کے لئے خورد بین یا کسی اور آلے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ بالکل شفاف تھی۔ اس کی بھدی اور موٹی ہنسی جو اکثر اس کے مٹمیلے ہونٹوں پر بچوں کے ٹوٹے ہوئے گھروندے کی مانند نظر آتی تھی اصلی ہنسی تھی بڑی صحت مند اور اب کہ اس کی سدا متحرک آنکھوں نے آنسو اُگلے تھے۔ تو ان میں کوئی مصنوعی پن نہیں تھا۔ راجو کو سعید ایک مدت سے جانتا تھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے چہرے کے خطوط تبدیل ہوئے تھے اور وہ غیر محسوس طریقے پر لڑکی سے عورت بننے کی طرف متوجہ ہوئی تھی.... چونکہ اس کے اندر ایک کے بجائے تین چار عورتیں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ چار سوداگر بھائیوں کو وہ ہجوم نہیں سمجھتی تھی۔ یہ .... ہجوم سعید کو پسند نہیں تھا۔ اس لئے کہ ایک عورت کے ساتھ وہ صرف ایک مرد منسلک دیکھنے کا قائل تھا مگر یہاں یعنی راجو کے معاملے میں اسے پسندیدگی اور نا پسندیدگی کے درمیان رک جانا پڑتا تھا، کیونکہ مختلف قسم کے خیالات اس کے دماغ میں جمع ہو جاتے۔ اور بعض اوقات اسے غیر ارادی طور پر راجو کو داد دینا پڑتی۔ یہ داد کس بات کی تھی۔ اس کے متعلق وہ یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ اس لئے کہ خیالات کی بھیڑ بھاڑ میں وہ اس جذبے کو پہچاننے سے ہمیشہ قاصر رہا تھا۔ جو اس داد کا محرک ہوا کرتا تھا۔ گلی کے سب با شعور آدمی راجو کے متعلق جانتے تھے، ماسی محنتو، گلی کی سب سے عمر رسیدہ عورت تھی۔ اس کا چہرہ ایسا تھا جیسے پیلے رنگ کے سوت کی انٹیاں بڑی بے پرواہی سے نوچ کر ایک دوسرے میں الجھا دی گئی ہیں ، یہ بڑھیا بھی جس کی آنکھوں کو بہت کم سجھائی دیتا تھا۔ اور جس کے کان قریب قریب بہرے تھے، راجو سے چلم بھروا کر اس کی غیبت میں اپنی بہو سے یا جو کوئی بھی اس کے پاس بیٹھا ہو کہا کرتی تھی۔''اس لونڈیا کو گھر میں زیادہ نہ آنے دیا کرو۔ورنہ کسی روز اپنے خصموں سے ہاتھ دھو بیٹھو گی....''یہ کہتے وقت شاید اس بڑھیا کی تمام جھریوں میں اس کی گم گشتہ جوانی کی یاد رینگ جاتی تھی....'' راجو کی غیر حاضری میں سب اس کو برا کہتے تھے۔ اور ان گناہوں کے لئے خدا سے معافی مانگتے تھے۔ جو شاید آگے چل کران سے سرزد ہو جائیں عورتیں جب راجو کا ذکر کرتی تھیں ، تو اپنے آپ کو بہت بلند سیرت تصور کرتی تھیں ، اور دل ہی دل میں یہ سوچ کر فخر محسوس کرتی تھیں ، کہ ان کے دم سے نسوانیت کا وقار قائم ہے....! سب راجو کو برا سمجھتے تھے، لیکن عجیب بات ہے۔ کہ اس کے سامنے آج تک کسی نے بھی نفرت کا اظہار نہیں کیا تھا۔ بلکہ محبت پیار سے اس کے ساتھ پیش آتے تھے، شاید اس کا باعث وہی نام نہاد اخلاقی معیار ہو۔ مگر اس اچھے سلوک میں راجو کی خوش باش اور دوسروں کو ممنون کرنے والی طبیعت کو بھی کافی دخل تھا۔ سوداگروں کے گھر کے کام کاج سے فارغ ہو کر جب کبھی وہ کسی ہمسایہ کے ہاں جاتی، تو وہاں بیکار گپ نہیں اڑاتی تھی۔کبھی کسی کے برتن مانج دئیے کبھی کسی کے بچے کے پوترے بدل دئیے۔ کبھی کسی کی چوٹی گوندھ دی۔ کبھی کسی کے سر میں سے جوئیں نکال دیں مٹھی چاپی کر دی، وہ بغیر کام کے دراصل کہیں بیٹھ ہی نہیں سکتی تھی۔ اس کے موٹے اور بھدے ہاتھوں میں بلا کی پھرتی تھی، اور اس کا دل جیسا کہ ظاہر ہے، ہر وقت اس تلاش میں رہتا تھا کہ کسی کو خوش کرنے کا موجب ہو۔ راجو دوسروں کی خدمت میں کئی کئی گھنٹے صرف کرتی تھی، مگر شاباش یا شکریہ کے الفاظ سننے کے لئے ایک منٹ بھی انتظار نہیں کرتی تھی۔ ماسی محنتو کی چلم بھری، سلام کیا اور چل دی، مصنف صاحب کو بازار سے فالودہ لا کر دیا، ان کے بچے کو تھوڑی دیر گود میں کھلایا، اور چلی گئی، غلام نیچہ بند کی بڑھیا دادی کی پنڈلیاں سہلائیں اور اس کی دعائیں لئے بغیر چل دی....'' یہ گنٹھیا کی ماری بڑھیا، جو اپنی عمر کی ایسی منزل پر پہنچ گئی تھی۔ جہاں اس کا وجود ہونے یا نہ ہونے کے برابر تھا، اور جسے غلام محمد حقے کا بیکار نیچہ سمجھتا تھا۔ راجو کے ہاتھوں ایک عجیب قسم کی راحت پاتی تھی۔ اس کی اپنی بیٹیاں اس کے پاؤں دابتی تھیں ، مگر ان کی مٹھیوں میں وہ رس نہیں تھا۔ جو راجو کے ہاتھوں میں تھا۔ جب راجو اس کی پنڈلیاں سہلاتی تو وہ اسے فرشتہ تصور کرتی، مگر اس کے چلے جانے کے بعد فوراً ہی کہا کرتی، حرامزادی اس طرح پیر دبا دبا کر ان سوداگر بچوں کو پھانسا ہو گا....''؟ خیالات کی رو جانے سعید کو کہاں بہا لے گئی.... یکایک وہ چونکا اور سوراخ پر آنکھ جما کراس نے پھر باہر کی طرف دیکھا۔بجلی کی روشنی گلی میں ٹھٹھری رہی تھی۔ رات کی خاموش گنگناہٹ سنائی دے رہی تھی۔ مگر راجو وہاں نہیں تھی! اس نے کھڑکی کا دروازہ کھولا اور باہر جھانک کر دیکھا، اس سرے سے اس سرے تک رات کی سرد خاموشی بہہ رہی تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا، کہ لالٹین کے نیچے کبھی کوئی کھڑا ہی نہیں تھا، پیلی روشنی میں عجیب قسم کے ویرانی گھلی ہوئی تھی۔ اس کا دل بھر آیا۔ اس کی زندگی اور افیون کھانے والے آدمیوں کے چہروں جیسی گلی میں کتنی مشابہت تھی۔ سعید نے کھڑکی کا دروازہ بند کر دیا۔ سونے کی خاطر اس نے لحاف اوڑھا تو ایک بار پھر سردی اس کی ہڈیوں تک پہنچنے لگی....